Village Poetry In Urdu:
حدودِ وقت کے دروازے منتظر ہیں نسیمؔ
کہ تو یہ فاصلے کر کے عبور دستک دے
سڑک تم اب آئی ہو گاؤں
جب سارا گاؤں شہر جا چکا ہے
یار پیڑوں کی اُداسی نہیں دیکھی جاتی
مُجھ سے مت ملنا مگر گاؤں تو آ جانا
آوارہ گردِ شہر کو پتھر نہ مارنا
آداب آشنا نہ سہی، آدمی تو ہے
گاؤں میں رہوں گےتو ماں باپ کے نام سے پہنچانے جاؤ گے۔
شہر میں رہو گے تو مکان نمبر سے پہنچانے جاؤ گے۔
دل دروازوں پر لٹکی زنجیر ہلاتا ہے
گاؤں کا ایک ملنگ جو رات کو ہیر گاتا ہے
میں اپنے گاؤں سے کچھ اس لیے بھی دور ہوا
کہ مجھ سے مل کے سبھی تیرا ذکر کرتے تھے
وہ شہر کی سڑکوں پے شور کی مانند
میں دور کسی گاؤں میں مغرب کی آذان جیسا
میں گاؤں کا ہوں سو ڈر رہا ہوں جُدائیوں سے
تو شہر کی ہے میں جانتا ہوں نہیں ڈرو گی"
زادِ سفر میں گاوں کی یادوں کو باندھ کر
شہروں کو لوٹتی ہوئی آنکھوں کی خیر ہو
عین ممکن ہے کوئی بچھڑا ہوا مل جائے کہیں
کیوں نہ اس بار تیرے گاؤں کا میلہ دیکھیں
میرے گاؤں میں چائے کا ہوٹل تھا لیکن
میرے گاؤں میں تیرے ہاتھ کی چائے نہ تھی
میرے گاؤں کا حسن مت پوچھو
چاند کچے مکاں میں رہتا تھا
اک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
اک اور گاؤں شہر کی وسعت میں کھو گیا
دور تک ساتھ دیا کرتی ہیں آنکھیں ان کا
تو نے دیکھے ہیں کبھی گاؤں سے جاتے ہوئے لوگ؟
زادِ سفر میں گاوں کی یادوں کو باندھ کر
شہروں کو لوٹتی ہوئی آنکھوں کی خیر ہو-
شہر کو چھوڑ کے ، گاؤں کی طرف آتے ھیں
لعل تھک جائیں تو ، ماؤں کی طرف آتے ھیں
میرے گاوں میں تو تتلی پر بھی مر مٹتے ہیں لوگ
تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ہو جائے گی
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تِھیں , دِل جِن میں .. ناچتا گاتا تھا
اب ... اِس سے فرق نہیں پَڑتا .. ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا
اُس کی بارات پھیکی پڑ گئی تھی
میرے دکھ میں سارا گاؤں شامل تھا
اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
پیری میں خم کمر میں نہیں ضعف سے قمرؔ
میں جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کدھر گئی
ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا
راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے
مجھے ہے شہر کے نقشہ نگار پر حیرت
ہر اک سڑک ترے گاوں کی سمت جاتی ہے
ہماری آنکھیں اُداس غزلوں کے قافیے ہیں
ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے
یہ کھیت جیسے کہ میر و غالب کے شعر ساحر
یہ کچے رستے ہمارے گاؤں کی شاعری ہے
جیت اور ھار کا امکان کہاں دیکھتے ھیں
ھم گاوں کے لوگ ھیں نقصان کہاں دیکھتے ھیں
لیکن جھمکوں میں بھی بڑے بڑے زبردست ڈیزائن آئے ہیں
یہ ڈیزائن صرف گاؤں میں چلتے ہیں سیدھے سادھے لوگ ہوتے ہیں
ہم گاؤں والے ہیں اظہار کر نہیں سکتے
ہم ڈرتے ہیں شہرِ لاہور کی حسین لڑکیوں سے
یعنی کوئ بڑا خسارہ تھا
سارا گاوں گلے ملا مجھ سے
تیرے گاؤں کی مٹی لگی ہے پیروں کو
میرے گاؤں کے رستے خوشی سے پاگل ہیں
تیری خاطر تَو , کوئی ______ جان بِھی لے سَکتا ہُوں
میں نے چاہا ہے تُجھے ، گاؤں کی عِزت کی طرح
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تِھیں , دِل جِن میں .. ناچتا گاتا تھا
اب ... اِس سے فرق نہیں پَڑتا .. ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا
میرے گاؤں میں مجھے دیکھنے آیا ہوگا
سیر کرنے تو کاغان بھی جا سکتا تھا
بات سن کر جو گیا ہے تو یہی پیار ہے نا
ورنہ وہ بات کے دوران بھی جا سکتا تھا
برسوں سے جس نے عشق میں کاٹے تھے رتجگے
وہ سانپ آج رات کی رانی نگل گیا
بچپن میں ہاتھ چھوڑ کے بچھڑا تھا ایک شخص
یہ رنج میری ساری جوانی نگل گیا
کون کسی کا یار ہے سائیں
یاری بھی بیوپار ہے سائیں
یہ بھی جھوٹا، وہ بھی جھوٹا
جھوٹا سب سنسار ہے سائیں
ہم تو ہیں بس رمتے جوگی
آپ کا تو گھر بار ہے سائیں
کب سے اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جس کو مجھ سے پیار ہے سائیں
گاؤں کی عزت کا رکھوالا
گاؤں کا لمبردار ہے سائیں
گہرے تھے زخم اُن کے
نشانات رہ گئے
تُو تو نہیں رہا تیرے
اثرات رہ گئے
اس گاؤں جیسا حال ہوا
دل کا تیرے بعد
جس میں شجر رہے
یا مکانات رہ گئے
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاوں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاوں والے
تُو کہاں تھا میرے خالق کہ میرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداوں والے
دل کےمعاملات سےانجان تو نہ تھا
اِس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کےدَم سےرونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل
کچھ اِس میں اُسکی ذات کا نقصان تو نہ تھا
یہ کیا کہ شہروں میں آ تو جانا
چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند و بالا عمارتوں میں
پھر اپنے گاؤں تلاش کرنا
چل جنت اُپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
,
اُس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے ؟
یہاں ہر اِک بات نِرالی ہے
,
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
میرے گاؤں کی نشانی ہے کہ ہر شام وہاں
چاند ہر ایک کی چوکھٹ پہ اتر آتا ہے
خواب میں ایک عدو میرا گلا گھونٹتا ہے
ساتھ اک دوست کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے
اتنی تکلیف کسی پیڑ نے جھیلی ہوتی
دیکھتی اس پہ بھلا کیسے ثمر آتا ہے

















